نیپال کے اولیائے ثلاثہ کے برکات کا تاریخی پس منظر


اولیائے ثلاثہ روضہ شریف نیپال




نیپال کے اولیائے ثلاثہ کے برکات کا تاریخی پس منظر


روضہ شریف مہوتری پردیس نمبر 2 میں واقع تین جلیل القدر اولیاء: گدا علی شاہ، بہار علی شاہ ،رحم علی شاہ کے آخری آرام گاہ پر جانے کا مدتوں بعد موقع ملا. نیپال میں بھیڑ کے اعتبار سے یہ ثانی اجمیر ہے. صدیوں سے نیپالی مسلمانوں پر ان بزرگوں کا روحانی فیضان جاری ہے ، البتہ ان بزرگوں کی آمد کی متحقق تاریخ کہیں مکتوب نھیں۔
یہاں نیپالی 12 بگہا کا رقبہ جو ان تینوں بزرگوں کے نام سے نیپال شاہی حکومت نے عطا کیا تھا، آپ نے ان جگہوں کو مسلمانوں کی قبرستان کے لیے دے دیا، یہ مہوتری میں مندرج ذیل :
1.روضہ
2.ادھیانپور
3. پرڑیا
4.لوہار پٹی،
5.ڈٹھورا،
6.بھگوتی پور،
7.کبیلاسہ
8.مجھولیا
9.پپراڑھی
10.بنوٹا
11.نکال
12.سگرامپور
13.بھنی
14.دھرم پور
إن چودہ گاؤں کی قبرستان ہے. زمینی دستاویز میں بھی تاریخ مکتوب نھیں۔
داتا گدا علی شاہ



ہاں درگاہ پر خدام کے صدیوں کے تسلسل سے پتہ چلتا ہے آپ یہاں تبلیغِ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی تشریف لائے ہونگے.
زمین کے لیے ہندو مسلم کے درمیان طویل عرصہ تک جنگ اور عدالت میں مقدمہ چلا ہے.
یہاں درگاہ پر جھونپڑی میں مدھوبنی کی طرف بینی پٹی کے خادم رہتے تھے زمین کے کاغذات نسل بعد نسل خدام کے پاس ہی ہوتے تھے جو کہ آج بھی موجود ہے۔
مولانا ریحان رضا انجم مصباحی نبیرہ حضرت مولانا شاہ حمید الرحمن پوکھریروی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب نیپال کی تین مقدس شخصیتیں اور مفتی محمد رضا مصباحی استاد جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اپنی کتاب نیپال میں اسلام کی تاریخ میں اور مولانا صفی اللہ صاحب گلاب پوری نے اپنی کتاب اولیائے ثلاثہ میں ان بزرگوں کے بارے اجمالاً روشنی ڈالا ہے
یہ تینوں بزرگ تبلیغ اسلام کی غرض سے ایران سے افغانستان ہوتے ہوئے چین کے شہر کاشغر تشریف لے گیے، پھر بحکم خداوندی نیپال تشریف لایے اور یہیں آپ کا وصال ہوا..
ایک واقعہ جسے کرامت کے باب میں ذکر کرنا مناسب ہوگا 1354ھ میں پوکھریرا کے ایک ولی کامل کاشف الاسرار حضرت مولانا ولی الرحمن قادری علیمی ابن مولانا مفتی عبد الرحمن سرکار محبی علیہما الرحمہ کو نگاہ ولایت سے ان بزرگوں سے شرف کلامی حاصل ہوئی...
ولی را ولی می شناسد
واقعہ یوں ہوا کہ آپ سرسنڈ، سیتامڑھی میلاد النبی میں آئے تھے، بانی میلاد کے گھر کچھ رشتہ دار ادھیان پور سے آئے ہوئے تھے، ان کے اصرار پر آپ یہاں تشریف لائے.
میلاد النبی میں آپ کے پر اثر خطاب سے لوگ خوب مستفید مستنیر ہوئے. بعد پروگرام معتقدین سلسلہ قادریہ رحمانیہ میں داخل بیعت ہوئے.
رات کو جب سب سو چکے روایت کے مطابق آپ کو تینوں بزرگوں سے روحانی ملاقات ہوئی، ملاقات و گفتگو کا سلسلہ صبح تک برقرار رہا. جب لوگ صبح بیدار ہوئے آپ موجود نھیں تھے، سبھی پریشان ہوگیے اور تلاش و جستجو شروع کردی اتنے میں کوئی گوالا دودھ بیچنے آیا، اس نے خبر دی کہ کوئی مولانا صحراء میں موجود ٹیلہ پر کسی سے بات رہے ہیں، اس وقت مزار نھیں بنا ہوا تھا.
جب مسلمان یہاں تشریف لائے آپ مسکرانے لگے اور فرمایا کہ یہ تینوں ٹیلے بھت بڑے ولیوں کی قبریں ہیں جن کے نام گدا علی، بہار علی ،رحم علی ہیں...
آپ کے حکم سے یہاں لنگر کا اہتمام ہوا، اور باضابطہ اسی تاریخ پر عرس کا سلسلہ شروع ہوا.
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی زمانے میں نیپال شاہی حکومت کی طرف سے ان تینوں بزرگوں کے نام کئ بگہا زمین رجسٹرڈ کی گئی تھی، تانبے پر منقش یہ تحریری دستاویز آج سے چالیس سال قبل مرشد سرکار محبی داتا نور الحلیم قادری کاشغری مرید وخلیفہ سید شاہ نور السلیم قادری کاشغری علیہما الرحمہ (وفات 1306ھ) موضع نستہ رسول پور بھروارہ دربھنگہ کے مرید عبد الصمد کے مکان میں انکے پوتے عباس کے توسط سے حاصل ہوا یے، جس کو مولانا شاہ حمید الرحمن پوکھریروی کو دیا، اسے آپ نے اہل ادھیان پور کو عطا کردیا ..
اس تانبے میں منقش بعینہ یہی نام ہیں جن کو قطب الإرشاد نے بیان کیا ہے. اور یہ بھی مکتوب ہے کہ تینوں شخصیتیں چین کے شہر کاشغر سے تشریف لائے تھے..
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان تینوں بزرگوں کے بارے کچھ علماء میں مشہور ہے کہ پوکھریرا کے مرشد کامل کے کشف سے ان بزرگوں کے بارے اطلاع ملی ہے، تب جاکر مزار بنا دیا گیا یے وہ غیر تحقیق امر اور مخالف حقیقت ہے.
حق یہ ہے قبرستان کی موجودگی ان بزرگوں کے نام سرکاری کاغذات کے مطابق صدیوں سے ہے . اور باضابطہ نسلاً بعد نسل یہاں خدام بھی ہوتے تھے.
ہاں عرس اہتمام کی ابتداء پوکھریرا کے مرشد کامل کے حکم سے ہوا ہو ، یہ قابل تسلیم اور موافق واقعہ ہے ممکن ہے.
الحمد اللہ آج ماسٹر عالم انصاری کی دعوت پر بست پور کے تقریباً سو عقیدت مندوں کے قافلہ کے ہمراہ ان بزرگوں کی بارگاہ میں حاضری کا موقع ملا، ماشاء اللہ خوشی ہوئی جان کر ریاست کی طرف سے ترقی کا کام قابل دید ہے ، عالی شان مسجد کا کام بھی جاری ہے، دھرم شالا وغیرہ پر بھی کافی روپے خرچ ہورہے ہیں....
درگاہ کا بارہ بگہا کا رقبہ ہے، کاش خصی مرغوں کے ذبح خانہ کے بجائے یہ رقبہ اور عمارتیں، عظیم تعلیمی ادارہ کے لیے استعمال کی جاتیں تو ان بزرگوں کی روحیں خوشیوں سے مچل جاتیں اور ان کے مشن تعلیم و تبلیغ کی صحیح تکمیل ہوتی.




خیر اندیش:
محمد مبشر حسن مصباحی
اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی

درگاہ شریف




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے